Posts

Showing posts from August, 2017

Hum Agar Unn Se Darr Gaye Hotey / ہم اگر اُن سے ڈر گئے ہوتے

ہم اگر اُن سے ڈر گئے ہوتے دل کے دیوار و در گئے ہوتے پگڑیاں گر نہیں گئی ہوتی تو یقینً تھا سر گئے ہوتے  دشمنِ جاں نے زندگی بخشی "اس سے اچھا تھا مر گئے ہوتے" ہم کو تم سے ہی پیار تھا ورنہ کتنے آئے قمر گئے ہوتے وقتِ ہجراں میں شہرِ جاناں سے کاش ہم  بے خبر گئے ہوتے آپ کے ساتھ ساتھ چلتے اگر منزلوں تک سفر گئے ہوتے ہم جو ہوتے وفاؤں کے پیکر نفرتوں کے جگر گئے ہوتے اب بھی کھلتی اگر نہ تیری زبان جانے کتنے ہی سر گئے ہوتے ہوتے انجامِ عشق سے واقف اپنی اپنی ڈگر گئے ہوتے (بشیر مہتاب)

Aaye Thay Tabassum Liye Huwe / آئے تھے تبسم لئے ہوئے

آئے تھے تبسم لئے ہوئے بزم سے چلے غم لئے ہوئے نفرتیں مٹانے چلے ہیں ہم چاہتوں کا پرچھم لئے ہوئے رنج کی دوا  کوئی  اے خدا آئے ابنِ مریم لئے ہوئے یاد ہے وہ دن!  بے وفائی کا؟ دیر تک  تھا پرنم لئے ہوئے دے مری خطا کی جو  ہو سزا میں کھڑا ہوں سر خم لئے ہوئے   کب سے ہوں میں اس انتظار میں آؤ گے خوشی تُم لئے ہوئے  کٹ رہی ہے  مہتاب زندگی  یاد اُن  کی  پیہم لئے ہوئے (بشیر مہتاب)

Deta Raha Mei'N Gamm Ki Dehai'e Tamaam Shabb / دیتا رہا میں غم کی دہائی تمام شب

دیتا رہا میں غم کی دہائی تمام شب  اس بے وفا کو شرم نہ آئی تمام شب  بدلا نہ دل ذرا بھی وہ کامل یقین تھا چغلی مرے رقیب نے کھائی تمام شب کچھ تزکرہ سا شام کو جو آپ کا ہوا "مجھ دل زدہ کو نیند نہ آئی تمام شب" دیئے  کہیں جلائے ترے انتظار میں صورت نہ تو نے اپنی دکھائی  تمام شب یوں قید کر لیا  مجھے صیاد نے کہ میں بس مانگتا تھا اس سے  رہائی تمام شب مہتاب تیرے پیار میں کوئی کمی تو ہے جس پیار نے وہ آنکھ رُلائی تمام شب (بشیر مہتاب)

Ahle Sarowat Ka Agar Jurum Ujaagar Hoga / اہلٍ ثروت کا اگر جرم اجاگر ہوگا

اہلٍ  ثروت  کا  اگر  جرم  اجاگر ہوگا مجھ کو معلوم ہے الزام مرے سر ہوگا جس طرح مجھ کو رلایا ہے ستمگر تونے تو بھی روئے گا تو انصاف برابر ہوگا جانے پہچانے نظر آتے ہیں سارے چہرے  بام و در دیکھ لے شاید یہ ترا گھر ہوگا آج اسی شخص نے چھینی ہے ہنسی پھولوں کی وہ جو کہتا تھا کہ آنگن میں صنوبر ہو گا میں نہ  رکھتا ترے قدموں میں کبھی سر اپنا مجھ کو معلوم اگر ہوتا تو پتھر ہو گا جو نہیں جانتا مہتاب وفا کے معنی شاذ ہی مہر و مروت کا وہ خوگر ہوگا (بشیر مہتاب)

Jabb Se Nikili Hai Roshni Humse / جب سے نکلی ہے روشنی ہم سے

جب سے نکلی ہے روشنی ہم سے بغض رکھتی ہے تیرگی ہم سے جب ہو فن میں محیط خونِ جگر پھر نکلتی ہے شاعری ہم سے دوستی ہم نبھاتے ہیں بھرپور دیکھ لو کر کے دوستی ہم سے جب وہ ائے تو قید کر لینا بھاگ جائے نہ پھر خوشی ہم سے آج نکلے اگر خفا ہو کر بات کرنا نہ پھر کبھی ہم سے ہم نے تنہا کیا تمام سفر کیوں کھٹکتی ہے رہبری ہم سے سچ ہے کہ ہم کلام ہوتی ہیں بلبلیں بھی کبھی کبھی ہم سے جب کہ الفت بھی ہم سے کرتے ہو پھر یہ کیوں اتنی بے رخی ہم سے جانتے ہیں ترا اے جانِ حیات اک تعلق ہے باہمی ہم سے کوئی تو بات ہو گی اے مہتاب کیوں خفا سی ہے زندگی ہم سے (بشیر مہتاب)

Teri Aankhu'N Ne To'h Tafreeq Ke Manzarr Dekhay / تیری آنکھوں نے تو تفریق کے منظر دیکھے

تیری آنکھوں نے تو تفریق کے منظر دیکھے میری نظروں نے سبھی لوگ برابر دیکھے کوڑیوں میں بھی بکاکرتے ہیں  انساں کے وجود اجرتِ خاص میں بکتے ہوئے پتھر دیکھے کوئی سپنا کوئی افسانہ نہیں ہے یارو ہم نے کانٹوں پہ بھی بچھتے ہوئے بستر دیکھے وعدے برسوں کے ارے توڑے گئے پل بھر میں دلِ نازک پہ بھی چلتے ہوئے خنجر دیکھے اپنے یاروں سے محبت کا صلہ مت مانگو ہم نے یاروں کے بدلتے ہوئے تیور دیکھے نفرتیں بانٹتے پھرتے ہیں جو انسانوں میں لوگ ایسے بھی ترے شہر میں اکثر دیکھے میں ہی یادوں میں بہت زیر ہوا جاتا ہوں ان کے حالات مگر پہلے سے بہتر دیکھے (بشیر مہتاب)

Tere Haatho'N Parr Likhey Thay Mein Ne Kuch Paryoo'N Ke Naam / تیرے ہاتھوں پر لکھے تھے میں نے کچھ پریوں کے نام

تیرے ہاتھوں پر لکھے تھے میں نے  کچھ پریوں کے نام میرے ہاتھوں پر لکھے تھے تم نے کچھ  پھولوں کے نام دیر تک باتیں ہوئیں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر رات میں نے اک غزل لکھی ہے اُن آنکھوں کے نام ہم نے سپنے میں جو دیکھا تھا وہ  صحرا اور پیڑ یاد ہے  وہ خواب لکھے تھے وہاں دونوں کے نام کیسے ممکن تھا کہ آتے  آشیاں جلنے کے بعد میری پیشانی پہ لکھے تھے مرے  اپنوں کے نام جو ہمارے درمیاں تھا تیری میری بات تھی جب حقیقت سامنے آئی کُھلے غیروں کے نام اک نظر  دیکھا تو  اظہارِ محبت کر دیا داغِ فرقت دے گیا مہتاب جو برسوں کے نام (بشیر مہتاب)